محترم قارئین کرام!
ع کرتا نہ میں ہرگز اپنے لختِ جگر کی شادی
اگر شادی رسول اﷲ کی سنّت نہ ہوتی
السلام علیکم !
آج میں آپ تمام سے نہایت ہی اہم مسئلہ یعنی ’’جہیز ایک سماجی ناسور‘‘کے
تحت بڑے ہی کرب و ملال کے ساتھ مخاطب ہونے جا رہی ہوں جو اب ہمارے معاشرے
کے لئے سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور جس نے ہمارے سماج کو اندر اور باہر
سے کھوکھلا کردیا ہے باوجود یہ شجر کھوکھلا تو ہے مگر اس کی جڑیں دور دور
تک پھیلی ہوئی ہیں۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں وہ کیا باتیں ہیں جس کی وجہ سے پورا سماج جہیز جیسی
لعنت میں ڈوب گیا ہے، کوئی چیز کا بار بار عمل پذیر ہونا یعنی رواج و روایت
کو جنم دیتا ہے، جہیز کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہوگیا ہے یعنی اس نے رواج و
روایت کے ساتھ فرضِ اوّلین کی شکل اختیار کرلی ہے یعنی اب شادی کا تصوّر
بغیر جہیز کے ناممکن ہوگیا ہے۔
ہم بات کررہے تھے روایت کی ہم نے اپنے دادی اماّں اور نانی جان سے سنا ہے
کہ ’’بیٹی گہوارے میں اور جہیز پٹیارے میں‘‘ یعنی اِدھر بیٹی پیدا ہوئی اور
اُدھر اس کے لیے جہیز جوڑنا شروع کردو۔
سب سے اہم بات یہ کہ جہیزدینے او ر لینے کا تصوّر آخر آیا کہاں سے؟کیا
اسلام میں اس کی گنجائش ہے؟ کیا ہمارے نبیوں پیغمبروں نے اس ضمن میں کوئی
بات کہی ہے بالکل نہیں اس بارے میں آپ کو بتادوں کہ ہمارے پیارے نبی حضرت
محمد ﷺ نے اپنی لختِ جگر و نورِ نظر حضرت بی بی فاطمہؓ کو جہیز میں کیا
دیا؟ قارئین آپ ﷺ چاہتے تو آسمان سے چاند، ستارے، ہیرے، جواہرات ، لعل و
گوہر، مخمل و کمخواب اور دونوں جہاں کے خزانے دے سکتے تھے لیکن آپ ﷺ نے
ایسا ہرگز نہیں کیا۔ بلکہ حکم الہی ہوا تو انہوں نے فاطمہؓ کا علیؓسے
نکاح کرنا طے کیا اور علیؓ نے پوچھا :’’اے علی ؓ تمہارے پاس نکاح کے لئے
کچھ ہے ‘‘اس پر حضرت علیؓ نے کہا میں بے سرو سامان ہوں، اس پر آپ ﷺ نے کہا
کہ تمہارے پاس ایک زرہ ہوا کرتی تھی وہ لیکر آؤ ، علیؓ وہ زرہ لے آئے آپ ﷺ
نے اُس زرہ کو فروخت کیا جس سے چار سو دینار حاصل ہوئے، آپ ﷺ نے علیؓ کو
بلایا اور کہا کہ دو سو روپیئے فاطمہؓ کا مہر ادا کردو اور باقی
کے دو سو
روپیئے سے ایک چٹائی ،ایک تکیہ ، ایک بگونہ، جگ اور گلاس خرید کر علیؓ کو
دے دیا۔ یہ تھا ضرورتِ زندگی کا سامان جو آپ ﷺ نے حضرت علیؓ ہی کے روپیوں
سے خریدا اور اُنہی کے شادی میں دیا۔ ایسا جہیز جس کی واقعی ضرورت تھی اس
طرح سے آپ ﷺ نے فاطمہؓ کی شادی کروائی تھی۔
کیا آج ہمارے یہاں اس طرح سے شادیاں انجام پاتی ہیں؟ کیا بیٹی کے والد سے
کہا جاتا ہے کہ ہمیں کچھ نہیں صرف آپ کی بیٹی چاہیے اور اپنے پیسوں سے اس
طرح سے نکاح کیا جاتا ہے؟
بہت کم لوگ ہیں جو اس طرح کی شادیاں کرتے ہونگے اُن کی مثال ایسی ہے جیسے کہ آٹے میں نمک ۔
قارئیں ۔ ہماری شادیوں میں خوفِ خدا نہیں بلکہ خوفِ دنیا ہوتاہے تمام
لوگوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ دنیا والے کیا کہیں گے؟ ساری
برادری میں ہماری ناک کٹ جائیگی، لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچینگے ؟ کوئی یہ
کیوں نہیں سوچتا ہمارا اﷲ کیا چاہتا ہے؟ اُس کی مرضی کیاہے؟ اور اﷲ کے
یہاں کونسا منہ لیکر جائینگے؟
ع سب ٹھاٹ پڑا رہ جائیگا
جب لاد چلیگا بنجارہ
شادی یعنی خوشی۔ کیا یہ خوشی صرف دولہے والوں کو ہی نصیب ہے؟ یہ کیسی ایک
طرفہ خوشی ہے؟ ذرا اُن والدین کے بارے میں سوچوں جو اپنی نورِ نظر کو بڑے
ارمانوں کے ساتھ پال پوس کر بڑا کرتے ہیں اُس کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں
اور جب بیٹی بڑی ہوجاتی ہے تو اُسے اچھی سسرال اوراچھّا شوہر ملے اس کے لیے
دن رات دُعائیں کرتے ہیں ، ایک ایک پائی جوڑ کر اُس کے شادی کا انتظام
کرتے ہیں۔
شادی کیسی ہوگی؟ لوگ کیسے ملینگے؟ اس طرح کے سوالات دن کا چین اور رات کی
نیند چھین لیتے ہیں۔ حیثیت سے بڑھ کر جہیز کا انتظام اور دوسرے اخراجات
کیئے جاتے ہیں شاید اس وجہ سے کہ سسرال میں بیٹی کو کسی کا طعنہ نہ ملے،
اُس کی چیزوں کا کوئی مزاق نہ اڑائے۔
لیکن دوسری طرف جو لوگ صاحبِ حیثیت ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو اچھے سے اچھا
جہیز دے رہے ہیں، جوڑے گھوڑے کی رقم ، کار،روپیہ پیسہ غرض جتنا بھی بن پڑے
کررہے ہیں۔ اچھّی سسرال اوراچھے داماد کو پانے کے لیے کسی بھی حد تک جارہے
ہیں۔ رشتوں کو چھینا جارہا ہے ، جس کی وجہ سے خاندان میں آپس میں رنجش
اورنااتفاقی پیدا ہورہی ہے۔ اگر کسی کے یہاں ایک سے زائد لڑکیاں ہوں تو وہ
پہلی بیٹی کی شادی میں اتنا دل کھول کر خرچ کرتے ہیں کہ لوگ دیکھ کر دنگ رہ
جاتے ہیں اتنا دکھاوا کرتے ہیں کہ تمام لوگوں کی نظریں جہیز کے ساما ن سے
نہیں ہٹتیں اور بڑے فخر سے ہر ایک آنے والے مہمان کو دکھایا جاتاہے۔ پس
پردہ یہ منصوبہ ہوتا ہے کہ باقی بیٹیوں کی شادی بھی اتنی شان و شوکت کے
ساتھ ہوگی۔
شاید یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ دکھاوا اور شان و شوکت سے غریب والدین کے
دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ اُنہیں اپنی کم مائیگی کا کتنا احساس ہوتا ہوگا اور
دل ہی دل میں یہ کہتے ہونگے ۔
ع غربت نے ڈھانپ لی ہیں میری خوبیاں تمام
امیری نے جیسے عیب تمہارے چھپالیئے
یہ تھا سکّے کا ایک رُخ ،دوسرا رُخ اس سے بھی قابل توجہ اور قابلِ فکر ہے،
رشتوں کے انتظار میں بیٹھی لڑکیاں، اپنی عمر کی حد پار کرتی ہوئی لڑکیاں،
اکثر غلط قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتی ہیں ایک تو سماج اور دوسرے مایوسی و
ناامیدی انہیں خود کشی کرنے پر مجبور کردیتی
ہے۔ دونوں صورتوں میں بد نامی
غریب والدین کے حصّے میں آتی ہے ، شاید اسی وجہ سے بیٹیوں کو کوکھ میں ہی
ختم کردیا جارہا ہے نہ وہ پیدا ہونگی اور نہ اُن کی وجہ سے یہ ذلّت اٹھانی
پڑیگی۔
دوسرے یہ کہ والدین اچھے رشتوں کے انتظار میں رہتے ہیں، لڑکیوں کو اعلیٰ
تعلیم دلائی جاتی ہے اور جب تعلیم مکمل ہوجاتی ہے تو برابری کے رشتوں کی
تلاش ہوتی ہے مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ گریجویٹ لڑکی کو میڑک پاس لڑکے سے یا
پھر خانگی نوکری والے رشتے پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے اور ایسے رشتے کا نتیجہ
یہ ہوتا ہے کہ دونوں میں بہت جلد علیحدگی ہوجاتی ہے اور اگر اتفاق سے ایسی
شادی چلی بھی تو کتنے دن چلے گی نتیجہ، معاملہ کورٹ میں جاتاہے، شاید
فمیلی کورٹ ایسے ہی مسائل کو حل کرنے کے لیے وجود میں آئے ہیں، طلاق کے
واقعات، معصوم بچّے والدین کی بے رحمی کے شکار آخر دونوں میں سے کس کے پاس
رہینگے، نہ جانے ان معصوموں کو کس بات کی سزا دی جاتی ہے، جنہوں نے دنیا
میں ابھی پوری طرح اپنے قدم بھی نہ جماپائے ہیں، ایسے پھول جو ابھی پوری
طرح سے کھل بھی نہ پائیں ہیں اُنہیں وقت سے پہلے ہی توڑ مروڑ دیا جاتا ہے
بالکل اس نظم کے بند کی طرح
کیا خطا تھی میری ظالم
تو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک
شاخ پر چھوڑا مجھے
اسی طرح بعض والدین اپنی بیٹیوں کو روزی روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں
وہ اپنی بیٹیوں کی شادی بڑی عمر کے لڑکوں سے(جو کہ باپ ،دادا) کی عمر کے
ہوتے ہیں شادی کردیتے ہیں ۔ باہر ملک یعنی سعودی عرب سے آنے والے ’’شیخ‘‘کم
عمر لڑکیوں سے کچھ ماہ کے لیے نکاح کرلیتے ہیں ایسی شادیاں کانٹریکٹ بیس
(معاہدے)کے تحت ہوتی ہیں۔ جس میں لاکھوں روپیئے دُلہن کے والدین کو دیئے
جاتے ہیں اس طرح کی شادیوں کا چلن حد سے زیادہ بڑھ رہا ہے یعنی:
’’تھوڑے دنوں کی شادی اور زندگی بھر کا رونا‘‘
اس طرح کی شادی کے بعد کے حالات کا اندازہ کرنا ہی تکلیف دہ ہوتاہے۔ ایسی
لڑکیوں سے کوئی دوبارہ شادی نہیں کرتا اور نتیجہ لڑکیاں ایسے ہی گھروں میں
بیٹھی رہ جاتی ہیں یا غلط راستوں پر چل کر اپنی زندگی اور بھی اجیرن کرلیتی
ہیں، ان کی زندگی بالکل اس شعر کی طرح ہوجاتی ہے۔
ع نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے
آئے دن اخبارات اور ٹی وی میں جہیز کو لیکر دی جانے والی اذیتوں اور
تکلیفوں کے بارے میں کتنا پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی جہیز کی وجہ سے
کتنی لڑکیوں کو ذہنی و جسمانی طور پر تکلیفیں دی جارہی ہیں۔ کتنی بہوؤں کو
سسرال والوں نے جہیز کے لیے مار ڈالا ہے۔ کئی مقدمات عدالت میں زیرِسماعت و
زیر بحث ہیں۔ اس کی وجہ سے کتنی لڑکیاں مائیکے آکر بیٹھ گئی ہیں اور اپنی
تقدیر پر آنسو بہا رہی ہیں۔
جوان بیٹیوں کا یوں گھر آکر بیٹھ جانے سے ضعیف والدین پر کیا گزرتی ہوگی
کیا اِس کا خیال اُن بے رحم لوگوں کو ہوتا ہوگا۔ مائیکے میں اپنے بھائیوں
اور بھابھیوں کے دئیے جانے والے طعنے ، خاندان کے لوگوں کی تمسخر بھری
باتیں و نگاہیں کیا ایک لڑکی کو جیتے جی مار ڈالنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
ع خزاں نصیب بہاریں اداس ہیں ان کی
جن کی مانگوں سے جوسیندور نکل جاتے ہیں
(زیباؔ )
جہیز کے بارے میں کتنا کچھ لکھا اور سُناجاچکا ہے مگر عمل؟ عمل کتنا ہوا
ہے؟ اس ضمن میں کتنے ہاتھ آگے بڑھیں ہیں اس کا رِ خیر کو انجام دینے کیلئے؟
قارئین کرام!
ذرا سوچئیے ہمارا پورا معاشرہ کس بے حیائی اور مطلب پرستی کے دلدل میں ڈوب
گیا ہے اور یہ صرف ہمارے آج کے نوجوانوں اور اُن کے والدین کی وجہ سے
ہورہا ہے، جہیز کے لالچ میں اتنے دنیادار ہوگئے ہیں کہ انہیں آخرت سے کچھ
مطلب ہی نہیں رہا، آج کے نوجوانوں اور اُن کے والدین سے میری درد بھری
التجا ہے کہ خدا را یہ دنیا کی چار روزہ زندگی جو کہ بڑا حسین دھوکا ہے،
کھاوا ہے اور جسے آپ لوگوں نے تآخر سمجھ لیا ہے تو اس سوچ سے باہر آئیں اور
جہیز جیسی لعنت کو معاشرے سے دور کرنے کیلئے ٹھوس اقدام کریں چاہے اس کے
لیے تمہیں کتنی ہی مخالفتیں اور صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
شادی صرف جہیز کے لئے نہیں سنت رسول اور اﷲ کی رضا کیلئے کریں اور آج ہی
سے نہیں بلکہ ابھی سے اس بات کا بھی عہد کرلیں کہ ہم بغیر لین دین اور
سادگی سے نکاح کی رسم کو انجام دینگے خود بھی عمل کریں اوراپنے رشتہ داروں
اور دوست احباب کو اس کی ترغیب دیں۔
پھر دیکھیں کیسے آپ کے یہاں بفضل اﷲ خوشیاں دستک دیتی ہیں کیسے دو خاندان
آپس میں ایک دوسرے کے سکھ دکھ کو اپنا سمجھ کر ایک دوسرے کے ہوجاتے ہیں
کیسے آپ کی عزت اور مرتبہ ہر ایک کی نظروں میں بلند ہوگا۔ آپ کا یہ فعل اﷲ
تعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ کو خوش کرنے کا ایک ذریعہ ہوجائیگا۔ انشاء اﷲ
تعالیٰ
امید کہ آپ تمام فخر امت رسول ﷺ اور فخر اسلام میری گزارش کو صرف گزارش
نہیں بلکہ اپنا فرض اوّلین سمجھ کر معاشرے میں پھیلے ہوئے اس ناسور کو جڑ
سے ختم کرکے ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھنے میں پہل کرینگے۔ اور تب تک
چین سے نہیں بیٹھے گے جب تک اسے پوری طرح ختم نہ کردیں اﷲ تعالیٰ لکھنے اور
پڑھنے سے زیادہ ہم تمام کو اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں اور
ہم کو اس کام کیلئے چُن لیں۔ آمین ثم آمین
آخر میں یہی کہونگی
ع کہدو اُن نادانوں سے کرتے ہیں جو جہیز طلب
داناؤں کی محفل میں زیباؔ ان لوگوں پر لعنت ہوتی ہے
از قلم :
ڈاکٹر شاہین فاطمہ زیباؔ
معلمہ میونسپل کارپوریشن اسکول نمبر ۳۔
اورنگ آباد۔